Podcasts by Category

Urdu Adab

Urdu Adab

Aoun Sami

An effort to share great thoughts and emotions described in best of words by Urdu poets of our times. Urdu poetry podcast

18 - محبت مستقل غم ہے
0:00 / 0:00
1x
  • 18 - محبت مستقل غم ہے

    ‏سَاغر صدّیقی ‏ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻏﻢ ﮐﺎ ﮔﮩﻮﺍﺭﮦ ‏جو آنسو رنگ لے آےٓ وہی دامن کا شہ پارہ ‏جسے اَرماں کا خُوں دے کر بنام آرزو سینچا ! ‏خدا جانے کہاں ہے وہ جہان زندگی آرا ‏مِرا ذوقِ خریداری ہے اِک جنسِ گراں مایہ ‏کبھی پھُولوں کے شیدائی کبھی کانٹوں کا بنجارہ ‏جہاں منصب عطا ہوتے ہیں بے فکر و فراست بھی ‏وہاں ہر جُستجو جُھوٹی ' وہاں ہر عَزم ناکارہ ‏بَسا اوقات چُھو لیتی ہَے دامن کبریائی کا ‏تمہاری جنبشِ اَبرو ' مِری تخلیقِ آوارہ ‏نہ جانے محتسب کیوں میکدے کا نام دیتے ہیں ‏جہاں کچھ آدمی کرتے ہیں اپنے دَرد کا چارہ ‏تِرے گیسو خیالوں کی گرفتِ ناز سے گزرے ‏کہ جیسے ایک جوگی بَن میں لہراتا ہے دو تارہ ‏پلٹ آےٓ ہیں شاید انقلابِ دید کے لمحے ‏نظر کی وُسعتوں میں ڈوبتا جاتا ہے نظّارہ ‏فقط اِک ہاتھ میں ٹوٹا ہوا ساغؔر اُٹھانے سے ‏لَرز اٹھا ہے اے یزداں تِری عظمت کا مینارہ

    Sun, 12 May 2024 - 02min
  • 17 - متاع الفاظ

    ‏”متاعِ الفاظ“ ‏یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو ‏ھم اِسی چھوٹی سی دنیا کے ، کسی رَستے پر ‏اتفاقاً ، کبھی بُھولے سے ، کہیں مل جائیں ‏کیا ھی اچھا ھو کہ ، ھم دوسرے لوگوں کی طرح ‏کچھ تکلف سے سہی ، ٹہر کہ کچھ بات کریں ‏اور اِس عرصۂ اخلاق و مروت میں ، کبھی ‏ایک پل کے لیے ، وہ ساعتِ نازک ، آ جائے ‏ناخنِ لفظ ، کسی یاد کے زخموں کو چُھوئے ‏ایک جھجھکتا ھُوا جملہ ، کوئی دُکھ دے جائے ‏کون جانے گا ؟ کہ ھم دونوں پہ ، کیا بیتی ھے ؟ ‏یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو ‏اِس خامشی کے اندھیروں سے ، نکل آئیں ، چلو ‏کسی سلگتے ھُوئے لہجے سے ، چراغاں کر لیں ‏چن لیں پھولوں کی طرح ، ھم بھی متاعِ الفاظ ‏اپنے اُجڑے ھُوئے دامن کو ، گلستاں کر لیں ‏یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو ‏دولتِ درد بڑی چیز ھے ، اقرار کرو ‏نعمتِ غم ، بڑی نعمت ھے ، یہ اِظہار کرو ‏لفظ ، پیماں بھی ، اِقرار بھی ، اظہار بھی ھیں ‏طاقتِ صبر اگر ھو تو ، یہ غم خوار بھی ھیں ‏ھاتھ خالی ھوں تو ، یہ جنسِ گراں بار بھی ھیں ‏پاس کوئی بھی نہ ھو پھر تو ، یہ دلدار بھی ھیں ‏یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو

    Sat, 11 May 2024 - 03min
  • 16 - اک فسردہ داغ میں ہے

    ‏‏اک حرف فسردہ داغ میں ہے ‏اک بات بُجھے چراغ میں ہے ‏اک نام لہو کی گردشوں میں ‏طوفان میں ڈولتا سفینہ ‏ڈوبے نہ بھنور کے پار اُترے ‏اک شام کہ جس کے بام و در کو ‏ہاری ہوئی صبح سے شکایت ‏رُوٹھے ہوئے چاند کی تمنّا ‏اک راہ نورد جو یہ چاہے ‏پاؤں نہ حدِ وفا سے نکلے ‏سر سے نہ سفر کا بار اُترے ‏پتّا تھا ابھی ہَرا سفر کا ‏کچّی تھی ابھی صدا کی ٹہنی ‏کیوں ریشۂ برگِ کم نمو میں ‏پھر آتشِ رنگ جل اُٹھی ہے ‏ کیوں صبح کی بے عمل سپہ نے ‏ہتھیار سجا لیے بدن پر ‏مقتل میں صفیں درست کی ہیں ‏کیوں درد کے جھٹپٹے کی حد پر ‏پھر ہجر غروب ہو رہا ہے ‏پھر نظم طلوع ہو رہی ہے ‏میں کون جو انجمِ سحر سے ‏اثبات و ثبوتِ ذات چاہوں ‏دریا سے حسابِ آب مانگوں ‏صحرا سے تعینات چاہوں ‏مہتاب سے چاندنی کا معیار ‏مضراب سے زخمِ نغمۂ تار ‏میں کون شمار کرنے والا ‏میں اپنی صدا سے ڈرنے والا ‏بارش سے سفال بھرنے والا ‏میں کون سوال کرنے والا ‏کاغذ پہ سُلگتی شامِ الہام ‏تختی پہ سپیدۂ سحر ہے ‏اے سطرِ نمودِ ذات، تیرا ‏کس ساعتِ معتبر میں گھر ہے ‏اس بام پہ میرے نام کی خشت ‏دیوار پہ دَھر ایاغ میرا ‏مہتاب کو میرے روبرو کر ‏آئینہ ہو مجھ پہ داغ میرا ‏مجھ پر بھی کُھلیں حدود میری ‏مجھ کو بھی ملے سراغ میرا ‏میں کون؟ کہاں مِرا سفر ہے ‏اے سطرِ نمودِ ذات میرا ‏کس ساعتِ بے زماں میں گھر ہے ‏اک تیرِ مفاہمت سے رشتہ ‏صیّاد میں، صَید میں، ہدف میں ‏اک سیلئی موج سے ہیں پیدا ‏سو رابطے ساحل و صدف میں ‏میں اپنا حریف ڈھونڈتا ہوں ‏اک لشکرِ دردِ صف بہ صف میں ‏اُترے یہ سنانِ حرفِ وعدہ ‏خود میرے کنار میں، طرف میں ‏شاید کہ ثبوتِ ذات پاؤں ‏میں اپنی عبارتِ حلف میں ‏اختر حسین جعفری

    Wed, 01 May 2024 - 05min
  • 15 - ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔

    Sun, 14 Apr 2024 - 01min
  • 14 - عارض اشکوں سے ۔۔۔۔

    ‏عارض اشکوں سے ترے تر نہیں دیکھے جاتے ‏خاک میں رلتے یہ گوہر نہیں دیکھے جاتے ‏دیکھ سکتا ہوں زمانے کی بدلتی نظریں ‏تیرے بدلے ہوئے تیور نہیں دیکھے جاتے ‏آئنہ بھی رخ روشن کے مقابل نہ رہے ‏ہم سے کوئی ترے ہمسر نہیں دیکھے جاتے ‏دل کے ساگر میں جو ہر شام و سحر اٹھتے ہیں ‏وہ تلاطم کبھی باہر نہیں دیکھے جاتے ‏مسکراتے ہوئے چہرے پہ نظر سب کی پڑی ‏زخم دل کے مگر اکثر نہیں دیکھے جاتے ‏حسن کے جلوے جو دیکھے ترے دیوانے نے ‏ہوش والوں سے وہ اکثر نہیں دیکھے جاتے ‏قدر کر قدر مرے ذوق نظر کی ساقی ‏سب حسیں یوں تو مکرر نہیں دیکھے جاتے ‏میکدہ اپنا ہے اور بادہ و ساقی اپنے ‏غیر کے ہاتھ میں ساغر نہیں دیکھے جاتے ‏یہ حسیں وادی و دریا گل و گلزار حبیبؔ ‏بن ترے مجھ سے یہ منظر نہیں دیکھے جاتے ‏

    Mon, 08 Apr 2024 - 02min
Show More Episodes